.....تاراجِ کارواں ... کربلا کی دوپہر کے بعد کی رقت انگیز داستان
کربلا کی دوپہر کے بعد کی رقت انگیز داستان سننے سے پہلے ایک لرزہ خیز اور دردناک منظر نگاہوں کے سامنے لایئے۔
صبح سے دوپہر تک خاندان نبوت کے تمام چشم وچراغ جملہ اعوان وانصار ایک ایک کرکے شہید ہوگئے۔ سب نے دم رخصت دل کی زخمی سطح پر ایک نئے داغ کا اضافہ کیا۔ ہر تڑپتی ہوئی لاش کی آخری ہچکیوں پرامام عالی مقام میدان میں پہنچے،گود میں اٹھایا،خیمے تک لائے، ...زانوپہ سررکھااور جاں نثار نے دم توڑدیا۔
نظر کے سامنے جن لاشوں کا انبار ہے ان میں جگر کے ٹکڑے بھی ہیں اور آنکھ کے تارے بھی۔ بھائی اور بہن کے لاڈلے بھی اور باپ کی نشانیاں بھی۔ ان بے گوروکفن جنازوں پرکون آنسو بہائے اور کون جلتی ہوئی آنکھوں پر تسکین کا مرہم رکھے۔ تنہا ایک حسین ، اور دونوں جہاں کی امیدوں کا ہجوم ایک عجب دردانگیز بے بسی کا عالم ہے۔ قدم قدم پر نئی قیامت کھڑی ہوتی ہے۔ نفس نفس میں الم واندوہ کے نئے نئے پہاڑ ...ٹوٹتے ہیں۔
دوسری طرف حرِم نبوت کی خواتین ہیں۔ رسول اللہ کی بیٹیاں ہیں، سوگوار مائیں اور آشفتہ حال نہیں ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جن کی گودیں خالی ہوچکی ہیں۔ جن کے سینے سے اولاد کی جدائی کا زخم رس رہا ہے۔ جن کی گود سے شیرخوار بچہ بھی چھین لیا گیا ہے اور جن کے بھائیوں بھتیجوں اور بھانجوں کی بے گوروکفن لاشیں سامنے پڑی ہوئی ہیں۔
روتے روتے آنکھوں کا چشمہ سوکھ گیا ہے۔ تنِ نیم جاں میں اب تڑپنے کی سکت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ عورت ذات کے دل کا آبگینہ یونہی نازک ہوتا ہے ذرا سی ٹھیس جو برداشت نہیں کرسکتا آہ!!! اس پر آج پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔
سب کے سب جام شہادت نوش کرچکے۔اب تنہا ایک ابن حیدر کی ذات باقی رہ گئی ہے جو لٹے ہوئے قافلے کی آخری امیدگاہیں۔ آہ!!! اب وہ بھی رختِ سفر باندھ رہے ہیں۔ خیمے میں ایک کہرام برپا ہے کبھی بہن کو تسکین دیتے ہیں،کبھی شہربانو کو تلقین فرمارہے ہیں۔ کبھی لخت جگر عابد بیمار کو گلے سے لگاتے ہیں اور کبھی کمسن بہنوں اور لاڈلی شہزادیوں کو یاس بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ امید وبیم کی کشمکش ہے فرض کا تصادم ہے۔ خون کا رشتہ دامن کھینچتا ہے، ایمان مقتل کی طرف لے جانا چاہتا ہے، کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے بعد اہل خیمہ کا کیا حال ہوگا۔ پردیس میں حرم کے یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ دشمن کیا سلوک کریں گے۔
دوسری طرف شوقِ شہادت دامنگیرہے۔ملت کی تطہیر اور حمایت حق کا فرض نیزوں پر چڑھ کے آواز دے رہا ہے۔بالآخر اہل بیت کے ناخدا،کعبہ کے پاسبان، ناناجان کی شریعت کے محافظ، حضرت امام بھی اب سرپرکفن باندھ کر رن میں جانے کےلئے تیار ہوگئے۔ اہل حرم کو تڑپتا بلکتا اور سسکتا چھوڑ کر حضرت امام خیمہ سے باہر نکلے اور لشکر اعداء کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
اب زرہ ساٹھہر جائے اور آنکھیں بند کرکے منظر کاجائزہ لیجئے۔ساری داستان میں یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا کلیجہ شق ہوجاتا ہے۔بلکہ پتھروں کا جگر بھی پانی ہوکر بہنے لگتا ہے۔ تین دن کا ایک بھوکاپیاسا مسافر تنِ تنہابائیس ہزار تلواروں کے نرغے میں ہے۔ دشمنوں کی خونریزیلغار چاروںطرف سے بڑھتی چلی آرہی ہے۔
دروازے پر اہل بیت کی مستورات اشکبار آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہی ہیں منٹ منٹ پر دردوغم کے اتھاہ ساگر میں دل ڈوبتاجارہا ہے۔ کبھی منہ سے چیخ نکلتی ہے کبھی آنکھیں جھپک جاتی ہیں۔ہائے رے تسلیم ورضا کی وادیئ بے ایاں۔ پھولوں کی پنکھڑی پہ قدم رکھنے والی شہزادیاں آج انگاروں پر لوٹ رہی ہیں جن کے اشارہ ابرو سے ڈوباہوا سورج پلٹ آتا ہے آج انہیں کے ارمانوں کا سفینہ نظر کے سامنے ڈوب ...رہا ہے اور زبان نہیں کھلتی۔
دیکھنے والی آنکھیں اپنے امیر کشور کو اپنے مرکز امید کو،اپنے پیارے حسین کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں کہ ایک نشانے پر ہزاروں تیر چلے، تلواریں بے نیام ہوئیں۔ فضامیں نیزوں کی اَنی چمکی اور دیکھتے ہی دیکھتے فاطمہ کا چاند گہن میں آگیا۔
زخموں سے چور خون میں شرابور،سیدہ کا راج دلارا جیسے ہی فرش پر گراکائنات کا سینہ دہل گیا۔ کعبے کی دیواریں ہل گئیں،چشم فلک نے خون برسایا۔ خورشیدنے شرم سے منہ ڈھانپ لیا اور گیتی کی ساری فضا ماتم واندوہ سے بھر گئی۔
اُدھرارواحِ طیبات اور ملائکہ ئ رحمت کے جلو میں جب شہید اعظم کی مقدس روح عالمِ بالا میں پہنچی تو ہر طرف ابن حیدر کی امامت ویکتائی کا غلغلہ بلند ہورہا تھا۔ ادھر خیمے میں ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ صبر شکیب کا خرمن جل رہا تھا۔ یتیموں،بیواوں اور سوگواروں کی آہ وفغاں سے دھرتی کا کلیجہ پھٹ گیا، امیدوں کی دنیا لٹ گئی۔ آہ!!! بیچ منجدھا رمیں کشتی کا ناخدا بھی چل بسا۔
اب بنو ہاشم کے یتیم کہاں جائیں؟کس کا منہ تکیں؟ کاشانہئ نبوت کی وہ شہزادیاں جن کی عفت سرا میں روح الامیں بھی بغیر اجازت کے داخل نہ ہوں۔ نسیم صبا بھی جن کے آنچلوں کے قریب پہنچ کر ادب کے سانچے میں ڈھل جائے۔ آج کربلا کے میدان میں کون ان کا محرم ہے جس سے اپنے دکھ درد کی بات کہیں۔
ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ ہمارے یہاں ایک میت ہوجاتی ہے تو گھر والوں کا کیا حال ہوتا ہے؟ غم گساروں کی بھیڑا ورچارہ گروں کی تلقین صبر کے باوجود آنسو نہیں تھمتے۔ اضطراب کی آگ نہیں بجھتی اور نالہ وفریاد کا شور کم نہیں ہوتا۔ پھر کربلا کے میدان میں حرم کی ان سوگوارعورتوں پر کیا گزری ہوگی جن کے سامنے بیٹوں،شوہروں اور عزیزوں کی لاشوں کا انبار لگاہوا تھا۔ جو غم گساروں اور شریک حال ہمدردوں کے جھرمٹ میں نہیں خونخوار دشمنوں اور سفاک درندوں کے نرغے میں تھیں۔
امام عالی مقام کا سرقلم کریاگیا۔ جسم اطہر پر نیزے کے ٣٢زخم اور تلوار کے ٣٤گھاؤ تھے۔ ابن سعد کے حکم پریزیدی فوج کے دس نابکاروں نے سیدہ کے لخت جگر کی نعش کوگھوڑوں کی ٹاپوں سے روندڈالا۔
حضرت زینب اور شہربانو خیمے سے یہ لرزہ خیز منظر دیکھ کر کربلبلا اٹھیں اور چیخ مار کر زمین پر گرپڑیں۔ اس کے بعد شمراور ابن سعد دندناتے ہوئے خیمے کی طرف بڑھے۔ حضرتِ زنیب بنت علی نے غیرت و اضطراب کی آگ میں سلگتے ہوئے کہا،شمر!!!تیری آنکھیں پھوٹ جائیں تو رسول اللہ ؐ کی بیٹیوں کو بے پردہ کرنا چاہتا ہے ہمارے چہروں کے محافظ شہید ہوگئے۔ یہ مانا کہ ہماری بے بسی نے تجھے دلیر بنادیا ہے۔ لیکن کیا کلمہ پڑھانے کا احسان بھی تو بھول گیا؟ سنگدل ظالم!ناموسِ مصطفی کی بے حرمتی کرکے قہر خدواندی کو حرکت میں نہ لا۔ تجھے اتنا لحاظ بھی نہیں ہے کہ ہم اسی رسول کی نواسیاں ہیں جس نے حاتم طائی کی قیدی لڑکی کو اپنی چادر اڑھائی تھی۔
حضرت زینب کی گرجتی ہوئی آوازسن کر عابد بیمار لڑکھڑاتے ہوئے اپنے بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور شمر پر تلوار اٹھاناچاہتے تھے کہ ضعف ونقاہت سے زمین پر گرپڑے۔
شمر نے یہ معلوم کرنے کے بعد کہ یہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی آخری نشانی ہےں، اپنے سپائیوں کو حکم دیا کہ انہیں بھی قتل کر ڈالوتاکہ حسین کا نام ونشان دنیا سے بالکل مٹ جائے لیکن ابن سعد نے اس رائے سے اتفاق نہ کیا اور یہ معاملہ یزید کے حکم پر منحصر رکھا۔
شام ہوچکی تھی۔ یزیدی فوج کے سردار جشنِ فتح میں مشغول ہوگئے۔ ایک پہررات گئے تک سرور ونشاط کی مجلس گرم رہی۔ ادھر خیمے والوں کی یہ شام غریباں قیامت سے کم نہیں تھی۔ حرم کے پاسبانوں کے گھر میں چراغ بھی نہیں جل سکا تھا۔ ساری فضا سوگ میں ڈوب گئی تھی۔ مقتل میں امام عالی مقام کا جسم اطہر بے گوروکفن رکھا تھا۔ خیمے کے قریب گلشنِ زہرا کے پامال پھولوں پر دردناک حسرت برس رہی تھی رات کی بھیانک اور وحشت خیزتاریکی میں اہل خیمہ چونک چونک پڑتے تھے۔
زندگی کی یہ پہلی سوگوار اور اداس رات حضرت زینب اور شہر بانو سے کاٹے نہیں کٹ رہی تھی۔ رات بھر خیمے سے سسکیوں کی آواز آتی رہی آہوں کا دھواں اٹھتارہا۔ اور روحوں کے قافلے اترتے رہے۔ آج پہلی رات تھی کہ خدا کا گھربسا نے کےلئے اہل حرم نے سب کچھ لٹادیا تھا۔
پردیس، چٹیل میدان، مقتل کی زمین، خاک وخون میں لپٹے ہوئے چہرے، میت کا گھر، بالیں کے قریب ہی بیمار کے کراہنے کی آواز،بھوک وپیاس کی ناتوانی،خونخوار درندوں کا نرغہ، مستقبل کااندیشہ ہجروفراق کی آگ،آہ!!! کلیجہ شق کردینے والے سارے اسباب متقل کی پہلی رات میں جمع ہوگئے تھے۔
بڑی مشکل سے صبح ہوئی،اجالا پھیلااور دن چڑھنے پر ابن سعد اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ اونٹی لے کر آیا اس کی ننگی پیٹھ پر حضرت زینب حضرت شہر بانواور حضرت زین العابدین سوار کرائے گئے۔ پھول کی طرح نرم ونازک ہاتھوں کو رسیوں سے جکڑدیا گیا عابد بیمار اپنی والدہ اور پھوپھی کے ساتھ اس طرح باندھ دیے گئے کہ جنبش بھی نہیں کرسکتے تھے۔
دوسرے اونٹوں پر باقی خواتین اور بچیاں اسی طرح رسیوں میں بندھی ہوئی سوار کرائی گئیں۔ اہل بیت کا یہ لٹاپٹا قافلہ جس وقت کربلا کے میدان سے رخصت ہوا، اس وقت کا قیامت خیز منظر ضبط تحریر سے باہر ہے۔
واقعہ کربلا کے ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ خولی جگر گوشہ بتول کا سرمبارک نیزے پرلٹکائے ہوئے اسیرانِ حرم کے اونٹ کے آگے آگے تھا۔ پیچھے ٧٢ شہدا کے کٹے ہوئے سردوسرے اشقیاء لئے ہوئے تھے۔
خاندانِ رسالت کا یہ تاراج قافلہ جب مقتل کے قریب سے گزرنے لگا تو حضرت امام عالی مقام کی بے گوروکفن نعش اور دیگر شہدائے حرم کے جنازوں پر نظر پڑتے ہی خواتین اہل بیت بیتاب ہوگئیں۔ دل کی چوٹ ضبط نہ ہوسکی آہ وفریادکی صدا سے کربلا کی زمین ہل گئی۔ عابد بیمار شدت اضطراب سے غش پہ غش کھارہے تھے۔ اور حضرت شہر بانو انہیں کس طرح سنبھالادے رہی تھیں۔ قیامت کا یہ دلگداز منظر دیکھ کر پتھروں کی آنکھیں بھی ڈبڈباآئیں۔
فاطمۃ الزہرہ کی لاڈلی بیٹی حضرت زینب کا حال سب سے زیادہ رقت انگیز تھا۔ صدمہ جانکاہ کی بے خودی میں انہوں نے مدینے کی طرف رخ کرلیا اور دل ہلادینے والی آواز میں اپنے ناناجان کو مخاطب کیا۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!!! آپ پر آسمان کے فرشتوں کا سلام ہو۔ یہ دیکھئے آپ کالاڈلا حسین کربلا کے میدان میں بے گوروکفن ہے۔ خاک وخون میں آلودہ ہے۔ناناجان آپ کی تمام اولاد کو ان بدبختوں نے شہید کردیا، یہاں پردیس میں ہمارا کوئی یاروشناسا نہیں۔
ابن جریر کا بیان ہے کہ دوست دشمن کوئی ایسانہ تھا جو حضرت زینب کے اس بیان پر آبدیدہ نہ ہوگیا ہو۔اسیرانِ حرم کا قافلہ اشکبار آنکھوں اور جگرگداز سسکیوں کے ساتھ کربلا سے رخصت ہوکر کوفے کی طرف روانہ ہوگیا۔ شام ہوچکی تھی۔ ایک پہاڑ کے دامن میں یزیدی فوج کے سرداروں نے پڑاؤں کیا۔ اسیران اہل بیت اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اتارلیے گئے۔
چاندنی رات تھی،پیشانی میں مچلتے ہوئے سجدوں کےلئے بھی ظالموں نے رسیوں کی بندھن ڈھیلی نہیں کی۔ پچھلے پہر حضرت زینب مناجات میں مشغول تھیں کہ ابن سعد قریب آیا اور اس نے طنز کرتے ہوئے دریافت کیا ۔ قیدیوں کا کیا حال ہے؟ کئی بار پوچھنے کے بعد حضرت زینب نے منہ ڈھانپ کر جواب دیا خدا کاشکر ہے ۔ نبی کا چمن تاراج ہوگیا۔ ان کی اولاد قیدکرلی گئی۔ رسیوں سے تمام جسم نیلے پڑگئے ہیں۔ ایک بیمار جونیم جاں ہوچکا ہے۔ اس پر بھی تجھ کر ترس نہیں آتا۔ اور نہیں تو ہماری بے کسی کا تماشا دکھانے اب تو ہمیں ابن زیاد اور یزیدکی قربان گاہ میں لے جارہا ہے۔اتنا کہتے کہتے وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگیں۔
دوسرے دن ظہر کے وقت اہل بیت کا لٹا ہوا کارواں کو فے کی آبادی میں داخل ہوا، خاندان نبوت کو گلی گلی میں پھیرایاجارہاہے۔ کلمہ پڑھنے والی امت کی غیرت دفن ہوگئی تھی۔ ابن زیاد کے بے غیرت سپاہی فتح کا نعرہ بلند کرتے ہوئے آگے آگے چل رہے تھے۔ جب اہل بیت کی سواری قلعہ کے قریب پہنچی تو ابن زیاد کی بیٹی فاطمہ اپنے منہ پر نقاب ڈالے ہوئے باہر نکلی، اور خاموش دور کھڑی حسرت کی نظر سے یہ منظر دیکھتی رہی۔
ابن زیاداور شمر کے حکم سے خاندان نبوت کی عورتیں اتاری گئیں۔ امام زین العابدین اپنی والدہ اور پھوپھی کے ساتھ بندھے ہوئے تھے ادھر بخار کی شدت سے ضعف وناتوانی انتہاکو پہنچ گئی تھی۔ اونٹ سے اترتے وقت غش آگیا اور بے حال ہوکر زمین پر گرپڑے سرزخمی ہوگیا۔۔ خون کا فوراہ چھوٹنے لگا یہ دیکھ کر حضرت زینب بیتاب ہوگئیں۔ دل بھر آیا۔ ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ کہنے لگیں!!!آلِ فاطمہ میں ایک ہی عابد کا خون محفوظ رہ گیا تھا چلو اچھا ہوا کوفے کی زمین پر یہ قرض بھی ادا ہوگیا۔
ابن زیاد کا دربار نہایت تزک واحتشام سے آراستہ کیا گیا تھا۔ فتح کے نشے میں سرشار،تخت پر بیٹھا ہوا ابن زیاد اپنی فوج کے سرداروں کی زبانی کربلا کے واقعات سن رہا تھا۔
سامنے ایک طشت میں امام عالی مقام کا سرمبارک رکھا ہوا تھا۔ ابن زیاد کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ وہ باربار حضرت امام کے لبہائے مبارک کے ساتھ گستاخی کرتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ اسی منہ سے خلافت کا دعویدار تھا۔ دیکھ لیا قدرت کا فیصلہ، حق سربلند ہوا،باطل کو ذلت نصیب ہوئی۔صحابی رسول حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ، اس وقت در بار میں موجود تھے ان سے یہ گستاخی دیکھی نہ گئی جوشِ عقیدت میں چیخ پڑے۔
ظالم!!! کیا کرتا ہے؟چھڑی ہٹالے، نسبتِ رسول کا احترام کر، میں نے بارہاسرکار کو اس چہرے کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے۔
ابن زیاد نے غصہ سے بیچ وتاب کھاتے ہوئے کہا۔ تو اگر صحابی رسول نہ ہوتا تو میں تیرا سر قلم کروادیتا۔ حضرت زید ابن ارقم نے حالت غیظ میں جواب دیا اتنا ہی تجھے رسول اللہ کی نسبت کا خیال ہوتا تو ان کے جگر گوشوں کو تو کبھی قتل نہ کراتا۔ تجھے ذرا بھی غیرت نہیں آئی کہ جس رسول کا تو کلمہ پڑھتا ہے انہی کی اولاد کوتہِ تغِ کرایا ہے اور اب ان کی عفت مآب بیٹیوں کو قیدی بناکر گلی گلی پھرا رہا ہے۔ ابن زیادیہ زلزلہ خیز جواب سن کر تلملا گیا۔ لیکن مصلحتاً خون کا گھونٹ پی کے رہ گیا۔
اسیران حرم کے ساتھ ایک بوسیدہ چادر میں لپٹی ہوئی حضرت زینب ایک گوشے میں بیٹھی ہوئی تھیں، کنیزوں نے انہیں اپنے جھرمٹ میں لے لیا تھا۔ ابن زیاد کی نظر پڑی تو دریافت کیا یہ کون عورت ہے؟ کئی بار پوچھنے پر ایک کنیز نے جواب دیا!!!
زینب بنتِ علی، ابن زیاد نے حضرت زینب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ خدانے تیرے سرکش سردار اور تیرے اہل بیت کے نافرمان باغیوں کی طرف سے میرا دل ٹھنڈاکردیا۔
اس اذیت ناک جملے پر حضرت زینب اپنے تیئں سنبھال نہ سکیں،بے اختیار روپڑیں۔ واللہ تونے میرے سردار کو قتل کرڈالا،میرے خاندان کا نشان مٹایا، میری شاخیں کاٹ دیں۔ میری جڑا کھاڑدی۔ اگر اس سے تیرا دل ٹھنڈا ہوسکتا ہے تو ہوجائے۔
اس واقعہ کے بعد ابن زیاد نے جامع مسجد میں شہر والوں کو جمع کیا اور خطبہ دیتے ہوئے کہا۔
اس خدا کی حمدوستائش جس نے امیر المومنین یزید بن معاویہ کو غالب کیا اور حسین بن علی کو ہلاک کرڈالا۔
اس اجتماع میں مشہور محب اہل بیت حضرت ابن عفیف بھی موجود تھے ان سے خطبے کے یہ الفاظ سن کر رہا نہ گیا۔ فرطِ غضب میں کانپتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور ابن زیاد کو للکارتے ہوئے کہا۔
خدا کی قسم تو ہی کذاب ابن کذاب ہے۔ حسین سچا، اس کا باپ سچا، اس کے نانا سچے۔
ابن زیاد اس جواب سے تلملا اٹھا اور جلاد کو حکم دیا کہ شاہراہ عام پر لے جاکر اس بڈھے کا سر قلم کردو۔
ابن عفیف نے شوق شہادت میں مچلتے ہوئے اور مقتل میں پہنچ کر چمکتی ہوئی تلوار کا مسکراتے ہوئے خیر مقدم کیا۔ خون بہا، لاش تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ کوثر کے ساحل پر جاں نثاروں کی تعداد میں ایک عدد کا اور اضافہ ہوا۔
دوسرے دن ابنِ زیاد نے اہل بیت کا تاراج کارواں ابن سعد کی سرکردگی میں دمشق کی طرف روانہ کیا۔ حضرت امام کا سرمبارک نیزے پر آگے آگے چل رہا تھا پیچھے پیچھے اہل بیت کے اونٹ تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ امام عالی مقام اب بھی اپنے حرم کے قافلے کی نگرانی فرمارہے ہیں۔
اثنائے سفر میں سرمبارک سے عجیب عجیب خوارق و کرامات کا ظہور ہوا رات کے سناٹے میں آہ و فغاں کی رقت انگیز صدائیں فضا میں گونجتی تھیں کبھی کبھی سرمبارک کے ارد گرد نور کی کرن پھونٹی ہوئی محسوس ہوتی۔
جس آبادی سے یہ قافلہ گزرتا تھا ایک کہرام برپا ہوجاتا تھا۔ دمشق کا شہر نظر آتے ہی یزیدی فوج کے سردار خوشی سے ناچنے لگے۔ فتح کی خوشخبری سنانے کے لئے ہر قاتل اپنی جگہ بیقرار تھا۔
سب سے پہلے زحر بن قیس نے یزید کو فتح کی خبر سنائی۔
حسین بن علی اپنے اٹھارہ اہل بیت اور ساٹھ اعوان و انصار کے ساتھ ہم تک پہنچے۔ ہم نے چند گھنٹے میں ان کا قلع قمع کردیا۔ اس قت کربلا کے ریگستان میں ان کے لاشے برہنہ پڑے ہوئے ہیں ان کے کپڑے خون میں تربتر ہیں ان کے رخسار گردوغبار سے میلے ہورہے ہیں۔ ان کے جسم دھوپ کی تمازت اور ہوا کی شدت سے خشک ہوگئے ہیں۔
پہلے تو فتح کی خوشخبری سن کر یزید جھوم اٹھا لیکن اس زلزلہ خیز ہلاکت آفریں اقدام کا ہولناک انجام جب نظر کے سامنے آیا تو کانپ گیا باربار چھاتی پیٹتا تھا کہ ہائے اس واقعہ نے ہمیشہ کے لئے مجھے ننگِ اسلام بنادیا۔ مسلمانوں کے دلوں میں میرے لئے نفرت و دشمنی کی آگ ہمیشہ سلگتی رہے گی۔ قاتل کی پشیمانی مقتول کی اہمیت تو بڑھا سکتی ہے پر قتل کا الزام نہیں اٹھا سکتی۔ اس مقام پر بہت سے لوگوں نے دھوکہ کھایا ہے۔ انہیں نفسیاتی طور پر صورت حال کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔ اس کے بعد یزید نے شام کے سرداروں کو اپنی مجلس میں بلایا۔ اہل بیت کو بھی جمع کیا اور امام زین العابدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
اے علی! تمہارے ہی باپ نے میرا رشتہ کاٹا۔ میری حکومت چھیننا چاہی اس پر خدا نے جو کچھ کیا وہ تم دیکھ رہے ہو۔ اس جواب میں امام زین العابدین نے قرآن کی ایک آیت پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہاری کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو پہلے سے نہ لکھی ہو۔
دیر تک خاموشی رہی، پھر یزید نے شامی سرداروں کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔ اہل بیت کے ان اسیروں کے بارے میں تمہارا کیا مشورہ ہے؟
بعضوں نے نہایت سخت کلامی کے ساتھ بدسلوکی کا مشورہ دیا مگر نعمان ابن بشیر نے کہا کہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیئے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اس حال میں دیکھ کر کرتے۔
زید نے حکم دیا کہ اسیروں کی رسیاں کھول دی جائیں اور سیدانیوں کو شاہی محل میں پہنچادیا جائے۔
یہ سن کر حضرت زینب روپڑیں اور انہوں نے گلوگیر آواز میں کہا:
''تو اپنی حکومت میں رسول زادیوں کو گلی گلی پھرا چکا اب ہماری بے بسی کا تماشہ اپنی عورتوں کو نہ دکھا۔ ہم خاک نشینوں کو کوئی ٹوٹی پھوٹی جگہ دے دے جہاں سرچھپالیں''۔
بالآخر یزید نے ان کے قیام کے لئے علیحدہ مکان کا انتظام کیا۔
امام کا سرمبارک یزید کے سامنے رکھا ہوا تھا اور بدبخت اپنے ہاتھ کی چھڑی کے ساتھ پیشانی مبارک کی گستاخی کررہا تھا۔ صحابی رسول حضرت اسلمی نے ڈانتے ہوئے کہا: ظالم یہ بوسہ گاہِ رسول ہے اس کا احترام کر۔''
یزید یہ سن کر تلملا گیا۔ صحابی رسول کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہ ہوسکی۔
حضرت زینب کی خواہش پر سرمبارک ان کے حوالے کردیا گیا۔ وہ سامنے رکھ کر روتی رہتی تھیں۔ کبھی حضرت شہربانو اور ام رباب سینے سے لگائے بیتے ہوئے دنوں کی یاد میں کھوجاتیں، ایک رات کا ذکر ہے نصف شب گزرچکی تھی۔ سارے دمشق پر نیند کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اہل بیت کے مصائب پر ستاروں کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں۔ اچانک سادات کی قیام گاہ سے کسی عورت کا نالہ بلند ہوا۔ محل کی دیواریں ہل گئیں۔ دل کی آگ سے فضا میں چنگاریاں اڑنے لگیں۔ یزید دہشت سے کانپنے لگا۔ جاکر دیکھا تو حضرت زینب بھائی کا سر گود میں لئے ہوئے بلبلارہی ہیں دردوکرب کی ایک قیامت جاگ اٹھی ہے اس درد انگیز نالے سے اس کے دل میں جو دہشت کی ایک قیامت جاگ اٹھی ہے اس درد انگیز نالے سے اس کے دل میں جو دہشت سمائی تو عمر کی آخری سانس تک نہیں نکلی۔
اسے اندیشہ ہوگیا کہ کلیجہ توڑ دینے والی یہ فریاد اگر دمشق کے درودیوار سے ٹکراگئی تو شاہی محل کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی کیونکہ دمشق کی جامع مسجد میں حضرت امام زین العابدین نے اہل بیت کے فضائل و مناقب اور یزید کے مظالم پر مشتمل جو تاریخی خطبہ دیا تھا اس نے لوگوں کے دل ہلادیئے تھے اور ماحول میں اس کی اثر انگیزی اب تک باقی تھی۔
اگر تقریر کا سلسلہ کچھ دیر اور جاری رہتا اور یزید نے گھبراکر اذان نہ دلوادی ہوتی تو اسی دن یزید کے شاہی اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی اور اس کے خلاف عام بغاوت پھیل جاتی۔
اس لئے دوسرے ہی دن نعمان ابن بشیر کی سرکردگی میں مع تیس سواروں کے اہل بیت کا یہ تاراج کارواں اس نے مدینے کی طرف روانہ کردیا۔
ہزار کوشش کی کہ کربلا کی یہ دہکتی ہوئی چنگاری کسی طرح ٹھنڈی ہوجائے لیکن جو آگ بحروبر میں لگ چکی تھی اس کا سرد ہونا ممکن نہیں تھا۔ صبح کی نماز کے بعد اہل بیت کا دلگداز قافلہ مدینے کے لئے روانہ ہوگیا۔
حضرت نعمان ابن بشیر بہت رقیق القلب، پاکباز اور محب اہل بیت تھے دمشق کی آبادی سے جو نہی قافلہ باہر نکلا حضرت نعمان، امام زین العابدین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دست بستہ عرض کیا۔ یہ نیاز بند حکم کا غلام ہے جہاں جی چاہے تشریف لے جائیے۔ میری تکلیف کا خیال نہ کیجئے۔ جہاں حکم دیجئے گا پڑاؤ کروں گا۔ جب فرمائیے گا کوچ کروں گا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت زین العابدین وہیں سے کربلا واپس ہوئے اور شہدائے اہل بیت کو دفن کیا اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کربلا کے آس پاس کی آبادیوں کو جب خبرہوئی تو وہ ماتم کناں آئے اور شہیدوں کی تجہیز و تکفین کا فرض انجام دیا آخر الذکر روایت زیاد ہ قابل اعتماد ہے۔
حضرت امام عرش مقام کا سرِ مبارک اب نیزے پر نہیں تھا۔ حضرت زینب شہر بانو اور عابد بیمار کی گود میں تھا۔ پہاڑوں، صحراؤں اور ریگستانوں کو عبور کرتا ہوا قافلہ مدینے کی طرف بڑھتا رہا۔ منزلیں بدلتی رہیں اور سینے کے جذبات مچلتے رہے۔ یہاں تک کہ کئی دنوں کے بعد اب حجاز کی سرحد شروع ہوگئی۔ اچانک سویا ہوا درد جاگ اٹھا رحمت و نور کی شہزادیاں اپنے چمن کا موسم بہار یاد کرکے مچل گئیں۔ کربلا جاتے ہوئے انہی راہوں سے کبھی گزرے تھے۔ کشور امامت کی یہ رانیاں اس وقت اپنے تاجداروں اور نازبرداروں کے ظلِ عاطفت میں تھیں۔ زندگی شام و سحر اپنے تاجداروں اور نازبرداروں کے ظل عاطفت میں تھی۔ زندگی شام و سحر کی مسکراہٹوں سے معمور تھی۔ کلیوں سے لیکر غنچوں تک سارا چمن ہرا بھرا تھا۔ ذرا چہرہ اداس ہوا چارہ گروں کا ہجوم لگ گیا۔ پلکوں پہ ننھا سا قطرہ چمکا اور پیار کے ساگر میں طوفان امنڈنے لگا۔ سوتے میں ذراسا چونک گئے اور آنکھوں کی نیند اڑگئی۔ اب اسی راہ سے لوٹ رہے ہیں تو قدموں کے نیچے کانٹوں کی برچھیاں کھڑی ہیں۔ تڑپ تڑپ کر قیامت بھی سرپہ اٹھالیں تو کوئی تسکین دینے والا نہیں۔ خیمہ اجڑا جڑا ہے۔ قافلہ ویران ہوچکا ہے۔ شہزادوں اور رانیوں کی جگہ اب آشفتہ حال یتیموں اور بیواؤں کی ایک جماعت ہے جس کے سرپہ اب صرف آسمان کا سایہ رہ گیا ہے۔ لبوں کی جنبش اور ابرو کے اشاروں سے اسیروں کی زنجیر توڑنے والے آج خود اسیرِ کرب و بلا ہیں۔
مدینے کی مسافت گھٹتے گھٹتے اب چند منزل رہ گئی ہے۔ ابھی سے پہاڑوں کا جگر کانپ رہا ہے۔ زمین کی چھاتی دہل رہی ہے۔ قیامت کو پسینہ آرہا ہے کہ کربلا کے فریادی مالک کونین کے پاس جارہے ہیں۔ قافلے میں حسین نہیں ہے اس کا کٹا ہوا سر چل رہا ہے۔ استغاثے کے ثبوت کے لئے کہیں سے گواہ لانا نہیں ہے۔ بغیر دھڑکا حسین جب اپنے نانا جان کی تربت پر حاضر کیا جائے گا تو خاکدانِ گیتی کا انجام دیکھنے کے لئے کس کے ہوش سلامت رہ جائیں گے۔
پردیس میں کربلا کے مسافروں کی آج آخری رات تھی۔ نہایت بیقراری میں کٹی۔ انگاروں پر کروٹ بدلتے رہے۔ صبح سویرے ہی کوچ کے لئے تیار ہوگئے۔
نعمان بن بشیر آگے آگے چل رہے تھے ان کے پیچھے اہل بیت کی سواریاں تھیں سب سے آخیر میں تیس محافظ سپاہیوں کا مسلح دستہ تھا۔
دوپہر کے بعد مدینے کی حد شروع ہوگئی ۔ اب فریادیوں کا حال بدلنے لگا۔ سینے کی آگ تیز ہونے لگی۔ جیسے جیسے مدینہ قریب آتا جارہا تھا جذبات کے سمندر میں طوفان کا تلاطم بڑھتا جاتا تھا کچھ دیر چلنے کے بعد اب پہاڑیاں نظر آنے لگیں کھجوروں کی قطار اور سبزہ زاروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
جونہی مدینے کی آبادی چمکی، صبر و شکیب کا پیمانہ چھلک اٹھا۔ کلیجہ توڑ کر آہوں کا دھواں نکلا اور ساری فضا پہ چھاگیا۔ ارمانوں کا گہوارہ دیکھ کر دل کی چوٹ ابھر آئی۔ حضرت زینب حضرت شہربانو اور حضرت عابد بیمار ابلتے ہوئے جذبات کی تاب نہ لاسکے۔ اہل حرم کے دردناک نالوں سے زمین کانپنے لگی۔ پتھروں کا کلیجہ پھٹ گیا۔
ایک سانڈنی سوار نے بجلی کی طرح سارے مدینے میں یہ خبر دوڑادی کہ کربلا سے نبی زادوں کا لٹا ہوا قافلہ آرہا ہے۔ شہزادہ ئرسول کا کٹا ہوا سر بھی ان کے ساتھ ہے یہ خبر سنتے ہی ہر طرف کہرام مچ گیا۔ قیامت سے پہلے قیامت آگئی۔ وفور، غم اور جذبہ بیخودی میں اہل ِمدینہ باہر نکل آئے۔ جیسے ہی آمنا سامنا ہوا اور نگاہیں چار ہوئیں دونوں طرف شورش غم کی قیامت ٹوٹ پڑی۔ آہ و فغاں کے شور سے مدینے کا آسمان دہل گیا۔ حضرت امام کا کٹا ہوا سر دیکھ کر لوگ بے قابو ہوگئے۔ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ حضرت زینب فریاد کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہوئیں۔
نانا جان! اٹھئے! اب قیامت کا کوئی دن نہیں آئے گا۔ آپ کا سارا کنبہ لٹ گیا آپ کے لاڈلے شہید ہوگئے۔ آپ کے بعد آپ کی امت نے ہمارا سہاگ چھین لیا، بے آب ودانہ آپ کے بچوں کو تڑپا تڑپا کے مارا۔ آپ کا لاڈلا حسین آپ کے نام کی دھائی دیتا ہوا دنیا سے چل بسا۔ کربلا کے میدان میں ہمارے جگر کے ٹکڑے ہماری نگاہوں کے سامنے ذبح کئے گئے۔ آپ کے پیارکا سینچا ہوا چمن تاراج ہوگیا۔ نانا جان!!
نانا جان یہ حسین کا کٹا ہوا سر لیجئے آپ کے انتظار میںاس کی آنکھیں اب تک کھلی ہوئی ہیں ذرا مرقد سے نکل کر اپنی آشفتہ نصیب بیٹیوں کا دردناک حال دیکھئے۔حضرت زینب کی اس پکار سے سننے والوں کے کلیجے پھٹ گئے
ام المومنین حضرت ام سلمہ، حضرت عبداﷲ ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت عبداﷲ ابن جعفر طیار اور حضرت عبداﷲ ابن زبیر کی رقت انگیز کیفیت تاب ضبط سے باہر تھی۔
حضرت عقیل کے گھر کے بچے یہ پڑھ رہے تھے۔ ''قیامت کے دن وہ امت کیا جواب دے گی۔ جب اس کا رسول پوچھے گا کہ تم نے ہماری اولاد کے ساتھ یہی سلوک کیا کہ ان میں سے بعض خاک و خون میںلپٹے ہوئے ہیں تلواروں، تیروں اور نیزوں سے ان کے جسم گھائل ہیں۔ان کی لاشیں بے آب و گیاہ وادی میںپڑی ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض قیدی ہیں، رسیوں کے بندھن سے ہاتھ نیلے پڑگئے ہیں۔
اپنے امام کا کٹا ہوا سر لئے اہل بیت کا یہ تاراج کارواں جس دم روضہ رسول پر حاضر ہوا، ہوائیں رک گئیں، گردش وقت ٹھہر گئی۔ بہتے ہوئے دھارے تھم گئے، آسمانوں میں ہلچل مچ گئی۔ پوری کائنات دم بخود تھی کہ کہیں آج ہی قیامت نہ آجائے۔
اس وقت کا دل گداز اور روح فرسا منظر ضبط تحریر سے باہر ہے۔ قلم کو یارا نہیں کہ دردوالم کی وہ تصویر کھینچ سکے جس کی یاد اہل مدینہ کو صدیوں تڑپاتی رہی۔ اہل حرم کے سوا کسی کو نہیں معلوم کہ حجرہ عائشہ میں کیا ہوا۔ کربلا کے فریادی اپنے نانا جان کی تربت سے کس طرح واپس لوٹے۔ پروردہ ناز کا سر مرقد انور کے باہر تھا۔ رحمت کی جلوہ گاہ خاص میں جب جنت کے پھول ہی ٹھہرے تو نرگس کی چشم محرم سے اہل چمن کا کیا پردہ تھا۔ برزخ کی دیوار تو غیروں پہ حائل ہوتی ہے۔ اپنی ہی گود کے پروردوں سے کیا حجاب! حضرت زینب ، حضرت شہربانو، حضرت ام رباب ۔ عابد بیمار اور ام کلثوم و سکینہ یہ سب کے سب محرم اسرار ہی تھے۔ اندرون خانہ کیا واقعہ پیش آیا کون جانے؟
اشکبار آنکھوں پہ رحمت کی آستین کس طرح رکھی گئی، کربلا کے پس منظر میں مشیت الٰہی کا سربستہ راز کن لفظوں میں سمجھایا گیا؟ پسِ یوار کھڑے رہنے والوں کو عالم غیب کی ان سرگذشتوں کا حال کیا معلوم؟
مرقدِ رسول سے سیدہ کی خواب گاہ بھی دوہی قدم کے فاصلے پر تھی۔ کون جانتا ہے۔ لاڈلے کو سینے سے لگانے اور اپنے یتیموں کے آنسو آنچل میں جذب کرنے کے لئے مامتا کے اضطراب میں وہ بھی کسی مخفی گزرگاہ سے اپنے بابا جان کی حریم پاک تک آگئی ہوں۔
تاریخ صرف اتنا بتاتی ہے کہ حضرت زینب نے بلک بلک کر کربلا کی داستان زلزلہ خیز سنائی۔ شہربانو نے کہا۔ خاندانِ رسالت کی بیوہ اپنا سہاگ لٹا کر درِ دولت پر حاضر ہے۔ عابد بیمار نے عرض کیا۔
''یتیمی کا داغ لئے حسین کی آخری نشانی ایک بیمار نیم جاں شفقت و کرم اور صبر و ضبط کی بھیک مانگتا ہے''۔
آہ و فغاں کا ابلتا ہوا ساگر تھم جانے کے بعد شہزادہ کونین حضرت امام عالی مقام کا سرِ مبارک مدرِ مشفقہ حضرت سیدہ کے پہلو میں سپردِ خاک کردیا گیا۔
......دریا کا بچھڑاہ ہوا قطرہ پھر دریا میں جا ملا پھر اٹھتی ہوئی موجوں نے اسے آغوش میں لے لیا۔
No comments:
Post a Comment